Child Marriage in pakistan/پاکستان میں نو عمر بچیوں کی شادیاں

کم عمر بچیوں کی شادی

کم عمری یا نابالغ بچوں کی شادیاں کروانا معاشرےکا اک ناثور ہے اور معاشرےمیں اس عمل کو اک لعنت سمجھا جاتاہے۔

تحریر: اولس یار
ادارہ: وفاقی اردویونیورسٹی آرٹس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،کراچی، پاکستان

Child marriage is abuse/کم عمری میں شادی اک لعنت ہے

کم عمر بچے یا بچی کی شادی ایک انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ملک کو برا نام فراہم کرتا ہے. اگرچہ بنیادی طور پر سندھ اور پنجاب کی روایت، ثقافت اور روایتی طرز عمل میں جڑے، پاکستان بھر میں بچوں کی شادی ایک عام واقعہ ہے. 
پاکستان بھر میں خاص کر پنجاب اور سندھ کےعلاقوں میں 15سال سے کم عمر پچیوں کی شادی ایک 30 سالہ مرد سےکروا دی جاتی ہے۔ کہیں تو یہ بھی دیکھنےکو ملا ہے کہ 45 سے 50 سال کےبوڑھےسے ایک 15سال سےکم عمر بچی کی شادی محض پیسوں کیلئےکروادی جاتی ہےاور شادی کرنےوالےمرد کےاس بچی کی عمر کی اپنی اولاد بھی ہوتی ہےلیکن جنسی حوس اسکی بیغیرتی اور بےشرمی کی تمام منزلیں عبور کرلیتی ہے۔
بچیوں کی کم عمری میں یعنی 15 سال سےکم عمر میں شادی کروانا صرف ظلم ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، 5سال کیبعد بچی کی اسکول پڑھنےکی عمر شروع ہوجاتی ہے جو 20 سال تک کم از کم پہنچتی ہے۔

کم عمری میں شادی کےنقصانات:


 10سال یا پھر 15سال سےکم عمر میں شادی کروادینےسےبچی تعلیم کی نعمت سےبھی محروم ہوجاتی ہےاور یہ ہی نہیں بلکہ بدعنوانی کا شکار، ظلم کا شکار، معاشرےکی بدنامی کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔
 بچبنےکی کم عمر میں شادی کروادینےسے بچی اپنے خوبصورت بچپن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور مایوسی اسکا مقدر بن جاتی ہے۔
کم عمری میں شادی کردینےسےبچی جسمانی بیماری کا شکار ہوجاتی ہے، میڈیکل سائنس کےمطابق عورت ذات میں زچگی کا عمل ہونےکیلئےاسکی عمر کم از کم 18 سال سے زائد ہونا ضروری ہے اور جسمانی وزن کم از کم 45 سے 50 کلو ہونا ضروری ہے، میڈیکل کی اس ریپورٹ کےبرعکس اگر عمل کیا جائےتو لڑکی میں زچگی یعنی حمل تو ٹہر جاتاہےلیکن اسکےقابل نا ہونا اور درد کی تکلیف کو برداشت نا کرنےسےاکثر موت واقع ہوجاتی ہےاور اگر موت واقع نا ہو تو بچی آگےچل کر عمر دراز بیماری کا شکار بن جاتی ہے۔

پاکستان میں کم عمری کی شادی کا تناسب:

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کےمطابق پاکستان میں 3%فیصد 15سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے، 21%فیصد 18 سال سےکم عمر لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے اور سندھ میں یہ تناسب زیادہ پایا گیا ہے72%فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال یا 15 سال سےکم عمر میں کردی جاتی ہیں۔ پنجاب میں 43%فیصد 18سال سےکم عمر میں لڑکیوں کی شادی کردی جاتی ہے۔ پاکستان کےتمام قبائلی علاقےبشمول سندھ و پنجاب میں 140 میلین بچیوں کی شادی کم عمری کروائی گئی ہیں۔

کم عمر شادی کیخلاف قانون منظور:

پاکستان میں سندھ پہلا صوبہ ہے جس نے 2013 میں کم عمر میں شادی کروانےکیخلاف قانون پاس بنایا اور اسےپاس کروایا۔
یہ قانون  (child resirart act 1 929 ) پاس کروایا جو بچیوں کی کم عمر شادی کرنےکا پابند اور اعلی درجہ کا قانون ہے۔
اس قانون کے تحت لڑکی کی عمر 18 سال اور لڑکےکی عمر 20 سال شادی کی رکھی گئی ہے، اس سے کم عمر میں شادی کرنے اور کروانےوالا قابل مجاز مجرم ہے۔
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ قانون پاس ہونےکیبعد بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا اور بچیوں کی زندگیاں انکا بچپن محض روایت،ثقافت اور چند روپیوں کیلئے برباد کیا جارہا ہے۔

اس کا حل کیا ہے؟

پیچیدہ عوامل کو سمجھنے کے لۓ جو بچوں کی شادی کو برقرار رکھے اسے ختم کرنے کی کلید ہے. دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں کو کم از کم تعلیمی خودمختاری مہیا کرکےانہیں بہترین مستقبل کا ضامن بنایاجائے۔  بہت سے والدین یا سرپرست اپنی بیٹیوں کو اپنی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے یا خاندان کے اعزاز کو تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے سماجی اور صنفی عدم مساوات اس مسئلے میں بہت زیادہ ہیں جو ایک المیہ ہے، والدین کو اپنی اولاد کو تعلیمی میدان میں سرفہرست رکھتےہوئےانہیں اقتصادی و خاندانی مشکالات کا شکار ہونےسے بچنےمیں اعلی کردار ادا کرنا ہوگا جو وقت اور معاشرےکی بنیادی ضرورت ہے۔
جب لڑکیاں اسکول میں رہیں گی انکے خاندانوں اور کمیونٹی کی طرف سے معاونت ہوگی تو لڑکیاں صحت مند بھی رہیں گی اور شادی کےقابل بھی ہونگی۔

والسلام۔۔۔

No comments:

Post a Comment

How, Who and why CORONA-VIRUS spreaded?

CORONA-VIRUS is waged war. Writer: The Wired Analyst Author: M. Ulass Yar Babar Ref.       Attached The corona virus is a known ...